Friday, September 4, 2015

کامیابی کے جشن سے ناکامی کے ماتم تک

ہم بڑی عجیب قوم ہیں؛ جب منانے پر آئیں تو فضول اور لایعنی قسم کے تہوار اور رسمیں مناتے رہتے ہیں اور کیڑے نکالنے پر آئیں تو قومی دن بھی محفوظ نہیں رہتا ۔ بالخصوص اگست اور ستمبر کے ماہ میں عجیب و غریب تبصرے دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں خود ترسی، اور تھکاوٹ  نمایاں ہوتی ہے۔ آپ ٹویٹر، فیس بک، اور دیگر سوشل میڈیا سائیٹس کھولیں، آپکو بہت سے ایسے تبصرے ملیں گے۔

·        ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے اور انکے غلاموں کے غلامی میں آ گئے
·        کس چیز کی خوشئ منائیں؟ کرپشن کی؟ لاقانونیت کی؟"
·        جو ملک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے، وہ آگے چلے گئے، کیااس کی خوشی منائیں؟
·        کرپٹ حکمرانوں کی غلامی کی خوشی منائیں؟
·      یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل ہوا، آج کیا ہے؟
·        ہم تو 1965 کی جنگ ہارے تھے، جشن کیسا؟
·         یہ  ملک صرف جاگیرداروں نے اپنے لئے بنوایا، ہمارے لئے کیا ہے؟
·        کرپٹ سیاستدان سب کچھ کھا گئے۔۔ اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
الغرض تبصروں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنکا لبِ لباب یہی ہے کہ ہمیں اس وقت تک کوئی جشن یا خوشی نہیں منانی چاہئے جب تک سب کچھ ہر لحاظ سے"پرفیکٹ" یا مکمل نہیں ہو جاتا۔ لیکن سوال یہ ہے "پرفیکشن" کا کیا معیار ہے؟ جو چیز آپکے لحاظ سے پرفیکٹ ہے، شائد وہ میرے لئےکوئی معنیٰ نہ رکھتی ہو۔ ایک لبرل کا معیار اور، مذہبی رہنما کا معیار اور، سول شخص کے معیار اور اور ایک فوجی افسر کی سوچ مختلف ہو گی۔  

کیا ہم روشن پہلو نہیں دیکھ سکتے؟ یا ہمیں ایسا کرنا ریاست کی چمچہ گیری کرنے کے مترادف لگتا ہے؟ یا پھر ہم واقعی  میں دشمن کے اس نفسیاتی حربے کا شکار ہو چکے جس میں کسی قوم کو سب سے پہلے اپنے تشخص اورذات سے متنفر کرنا مقصود ہوتا ہے؟
چند حقائق، جو آپ گوگل کر سکتے ہیں۔

·        وسائل کی نامناسب تقسیم کے باوجود پاکستان نے بہت جلد اپنے آپکو بطور ریاست سنبھالا۔
·        تمام تر مشکلات کے باوجود، ہم ایک ایٹمی ریاست بنے۔
·        ملائشیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک ہمارے پنچ سالہ منصوبوں سے سیکھ کر آگے بڑھے۔
·        ایک وقت تھا کہ دنیا ہمیں ناکام ریاست قرار دے رہی تھی، جبکہ آج ہماری معاشی ترقی کی تعریفیں ہر جگہ ہو رہی ہیں۔
·        پاکستانی سٹاک مارکیٹ دنیا کی 3 بہترین پرفارمرز میں سے ایک قرار دی گئی جبکہ پاکستانی معیشت کو بہت سے اعشاریوں  میں امریکہ و یورپ کی معیشت سے  بھی بہتر قرار دی گیا۔
·        اقتصادی راہداری اور دیگر معاشی منصوبوں پر بھرپور عزم سے کام جاری، جو تکمیل کے بعد بہت بڑے سماجی و معاشی انقلاب کا ذریعہ بنیں گے۔
·        ہاکی، کرکٹ، سکواش،اور  ٹینس میں ملکی تاریخ یقینا سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
·        ہمارے ہاں ای گورننس کے ماڈل کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہےا ور ورلڈ بینک نے اسے کئی ممالک کو Recommend کیا، جبکہ ایک ملک میں یہ نافذ بھی ہو چکا۔
·        دنیا میں نوجوان  فری لانسرز کی پانچویں بڑی تعداد پاکستان میں ہے، جو وطنِ عزیز کیلئے قیمتی ذرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔
·        دنیا کے کم عمر ترین آئی ٹی پروفیشنلز کا اعزاز بھی پاکستانی بچوں کے پاس ہے۔
·        اجناس، زراعت،  دودھ، اور پھلوں کی پیداوار میں ہم پہلے دس نمبرز میں آتے ہیں۔
·        عرب اور دیگر اسلامی ممالک اربوں ڈالر اپنے دفاع پر خرچ کرنے کے باوجود دفاع کیلئے ہماری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
·        ہم نے انتہائی کم وسائل اور بہت کم افرادی قوت کے باوجود بھارت کا مقابلہ کیا۔ 
·        1965 کی جنگ میں قومی ولولہ، فوج کی بہادری اور ایم ایم عالم جیسے ہیروز  کی کہانیوں کو پورا عالم تسلیم کرتا ہے، مگر ہمارے اپنے چند "دانشور" ان سب کو جھوٹ قرار دے کر اپنی تسکین کرتے ہیں۔
الغرض ایسی بہت سی "مثبت" اور خوش آئیند باتیں ہیں جنکی بدولت ہمیں اپنی قومیت پر فخر اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر ایسی سینکڑوں باتیں پڑھ سکتے ہیں جو خوشی منانے کیلئے کافی ہیں۔  ہاں، میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہماری تاریخ میں مغالطے اور پراپیگنڈہ کا عنصر نہیں۔۔ مگر یہ کہہ دینا کہ سب کچھ غلط اور سب کچھ جھوٹ ہے کسی صورت مناسب بات نہیں۔ 
جہاں تک بات غربت  اور منفی اعشاریوں کی ہے، تو بتاتا چلوں کہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک "امریکہ" ہے اور اپنے پڑوسی ملک ہندوستان میں تقریبا 60 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ۔۔ کیا اِن ملکوں نے آزادی کا جشن منانا چھوڑ دیا؟ 
 چین نے دوسرے جنگ عظیم میں اپنی کامیابی کو مناتے ہوئے اسی ہفتےایک  عظیم الشان پریڈمنعقد کی ، حالانکہ اسی جنگ میں  اسکے کم و بیش  14 ملین لوگ اپنی جان سے گئے۔تو پھر ماتم بنتا ہے یا جشن؟؟؟  جدید سنگاپور کے بانی و معمار  لی کوان یو کو "اقربا پروری" اور کرپشن کے سنگین الزامات کیساتھ زندگی گزارناپڑی۔ الزامات تو نیلسن منڈیلا، مہاتیر اور طیب اردگان پر بھی لگے  ہیں۔ لیکن کیا وہ قومیں "خود ترسی" کا شکار ہوئیں؟؟
ہمیں یقینابہت سی جگہوں پر کام کرنا ہے۔ کرپشن ختم کرنی ہے۔غربت کو ہرانا ہے۔ دہشتگردی کو شکست دینی ہے۔ تعلیم اور سماجی ترقی کے دیگر شعبوں پر توجہ دینی ہے۔۔ تاہم اسکے ساتھ ساتھ ہر پل آزادی جیسی نعمت کا "شکر" بھی ادا کرنا ہےاور جن لوگوں نے اس آزادی کے حصول کیلئے یا اسکے دفاع و سلامتی کیلئے جانی و مالی قربانیاں دیں انکو  خراجِ تحسین  بھی پیش کرنا ہے۔
جہاں تک تاریخ کو درست کرنے کا سوال ہے تو احباب یہ کام محققین اور تاریخ دانوں کا ہے، انکو کرنے دیں۔ اور خدارا صرف تعصبات اور عمومی رویوں کی بنیاد پر رائے مت بنائیں، خود تاریخ دیکھیں، مطالعہ کریں اور اساتذہ سے اس موضوع پر کلام کریں۔ انٹرنیٹ سے ہمیں دنیا بھر کی تحقیق مِل سکتی ہے، جو ہمیں درست سمت میں تاریخی حقائق بارے معلومات فراہم کرتی ہے۔ تاہم اکثریتی احباب چند مخصوص کالم نگاروں کے کالمز دیکھ کر اسکی بنیاد پر متعصبانہ اور منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔  صرف اتنی درخواست ہے کہ صرف کالم نگاروں کی نظر سے تاریخ کو مت دیکھئے، کالم بھی ایک فرد کی رائے ہوتی ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیگر تحاریر: