Thursday, April 3, 2014

کنفیوژن، نوجوان نسل اور سوشل میڈیا !

بات تعلیم کی ہو، ملازمت کی، سیاسی معاملات کی یا پھر سماجی تعلقات قائم کرنے کی،  ہماری نوجوان نسل میں قوت فیصلہ کی کمی بہت واضح ہے۔  بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل بھی کنفیوژن کی نظر ہو جاتا ہے اسکی بنیادی وجہ ہمارے نظام تعلیم کی کمزوری کے ساتھ ساتھ مناسب راہنمائی کے کلچر کا فقدان  ہے ۔  مختلف مقاصد کے لئے کام کرنے والی لابیاں اسی معاشرتی کمزوری کو اپنے حق میں استعمال کر تی ہیں اورمعاشرے میں منافرت اور مایوسی پھیلا رہی ہیں۔

 اس معاملے  کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ،یہ کنفیوژن نہ صرف نوجوان نسل بلکہ نام نہاد دانشور طبقہ میں بھی پائی جاتی ہے-  تازہ ترین مثال گزشتہ ہفتے روزنامہ جنگ کے دو کالم نویسوں کی  'مولوی قائد اعظم یا سیکولر قائد اعظم' پر بیوقوفانہ بحث ہے۔  اسی طرح  ایک اقلیت سے تعلق رکھنے والے صحافی بھائی سے ٹویٹر پر تھوڑی بحث کیا ہوئی کہ انہوں نے فورا ملائیت کا طعنہ دے مارا اور پھر پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے "تاریخی ناروا سلوک" کی گردان شروع کردی ۔  یہ  نہایت دکھ کی بات ہے کہ جن لوگوں نے عوام الناس کی فکری راہنمائی کرنا ہوتی ہے، وہی طبقہ یہ کنفیوژن  پھیلانے میں سب سے پیش پیش ہے۔

یہاں پر سوشل میڈیا کا بہت اہم رول ہے کیوں کہ روایتی میڈیا کی بنسبت اس پر زیرِبحث موضوعات زیادہ  ہوتے ہیں   اور یہاں پر پراپیگنڈہ کرنا نسبتا آسان ہوتا ہے۔میں چونکہ پروفیشنلی  ڈیجیٹل میڈیا کا بندہ ہوں اس لئے ٹرینڈز اور زور پکڑتی بحثوں پر نظر رکھتا ہوں اور نہایت ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا افواہ ساز فیکٹری کے ساتھ ساتھ شدت پسند رویے پروان چڑہانے کی مشین بنتا جا رہا ہے۔ اسکا نتیجہ  میں  کوئی سیاسی چول بن رہا ہے، کوئی مذہبی منافرت کی ایک چلتی پھرتی مثال  یا پھر کوئی پاکستان /اسلام بیزار کنفیوزڈ لبرل۔

سوشل میڈیا پر پائے جانے والے پراپیگنڈہ خیالات کسی نہ کسی طرح پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے دوستوں کی کنفیوژن دور کرنے کےلئے چند نکات لکھ رہا ہوں- 
·        "قائد اعظم کا مذہب اور مسلک-  دوستو ! یاد رکھیں میرے قائد  اسلام پسند راہنما تھے جنکی نظر میں اسلام ایک 'مذہب' نہیں بلکہ راہنما اصولوں کا ایک مجموعہ تھا جس سے ہم معاشرتی، سیاسی، سماجی اور ذاتی زندگی کے حوالے سے راہنمائی لے سکتے ہیں۔  اس شخص نے اسلامی معاشیات کی اصطلاح تب استعمال کی جب اسلامک بینکنگ نام کی چڑیا کا وجود بھی نہ تھا۔ جہاں تک انکی مسلکی وابستگی کی بات ہے تو وہ کسی بھی مسلک سے منسلک نہ تھے بلکہ اسلام پر بطور مسلم یقین کامل رکھتے تھے- سب سے اہم بات یہ کہ  انکی نظر میں شیعہ سنی کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی-  اگر ایسا ہوتا تو  نہ ہی مولانا شاہ احمد نورانی کے والد عبدالعلیم میرٹھی مریم بائی کو مسلمان کرتے- نکاح پڑہاتے اور نہ ہی  مولانا شبیر عثمانی انکا جنازہ (یہ دونوں حضرات حنفی تھے)۔  جہاں تک قائد کے سیکولر ہونے کی بات ہے تو عرض کرتا چلوں کہ وہ صرف پاپائے روم کی طرز کی  ملائیت  کے مخالف تھے اور  پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے جو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق دنیا میں ایک رول ماڈل بن سکے۔
·        آئین پاکستان کی رو سے  ہر وہ شخص مسلمان ہے جو  اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر یقین رکھتا ہو اور یہ دونوں باتیں قائد میں پائی جاتی تھیں- مجھے اس سے آگے جانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی شوق۔  آج بھی جو شخص آئین کے تحت مسلمان ہے، اسکو کافر قرار دینے کا حق نہ تو مجھے ہے اور نہ ہی  آپ کو۔
·        اقلیت اور اکثریت کی بات کی جائے تو یاد رکھیں، اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں اور ذمیوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے- اگر کہیں مسلمان کسی غیر مسلم سے غلط سلوک کرے تو سزا کا مستحق مگر اسکی بنیاد پر مذہب کو نشانہ بنانہ غلط ہے۔ پاکستان میں جب آج بھی اقلیتوں سے بہت بہتر سلوک ہوتا ہے- اگر یقین نہ آئے تو برما، انڈیا ، شام ، ایران اور چین کی مثال لے لیں کہ یہ ممالک   اقلیتوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں۔ معاشرتی نفسیات کے مطابق کوئی بھی اکثریت کبھی بھی اقلیت کو حاکمانہ  پوزیشن نہیں دیتی اور یہ تاریخی حوالوں سے ثابت امر ہے۔ لہذا اگر آپ کو پاکستان میں کوئی اقلیتی بندہ  وزیر اعظم بنتا نظر نہیں آتا تو اسی تناظر میں سمجھیں  اوردیکھیں اور خدارا اسکو مذہبی رنگ دینا بند کریں ۔
·         جہاں تک بات قادیانیت کی ہے تو میں انکے بنیادی معاشرتی اور مذہبی حقوق   کا دفاع کروں گا-   ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ انکے تحفظ کو یقینی بنائے-لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ریاست کا حق ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی پر نظر رکھے ۔ مگر یہ  اصول صرف اقلیتی جماعتوں کےلئےنہیں  ہے بلکہ ملک میں موجود مسلم اور غیر مسلم، سرکاری و غیر سرکاری  تبلیغی اور سیاسی جماعتوں کے لئے بھی ہے۔  ریاست سب کو 'under observation ' رکھتی ہے اور اسے رکھنا بھی چاہئے۔
·        ایک اور اہم مسئلہ سعودی عرب اور ایران  کی طرفداری کا ہے  جہاں روز لوگ لڑ رہے ہوتے ہیں کہ اس طرف جانا چاہئے کہ اس طرف- پتہ نہیں ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ  ریاستوں کے درمیان تعلقات مذہب سے زیادہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں-  اسلئے ملک کو بین الاقوامی تعلقات میں اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے-   مجھے  کسی بھی اسلامی ملک سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر  جنون کی حد تک پیار ہے تو صرف پاکستان سے۔ ہمارے لئے سب کچھ یہی ہے اور  جینا مرنا اسی کے ساتھ ۔ کسی برادر اسلامی ملک میں بھی چلے جاؤ تو 3rd کلاس شہریت سے زیادہ کچھ نہیں حاصل ہونا ۔ اس لئے خدا را  کسی اور ملک کی وکالت کرنے کے بجائے اپنے ملک کا مفاد دیکھو –  جس کو اسلامی بھائی چارے کا زیادہ شوق چڑھا ہے  تووہ دیکھ لے کہ لیبیا نے ہمارے ساتھ کیا کیا   -
·        ملک میں دو معاملات ایسے ہیں جن پر سیاست نہیں کرنی چاہئے- ایک معیشت اور دوسرا مذہب۔ جذباتیت بیچ کر سوشل میڈیا پر ہمدردی حاصل کرنا اور عوام کو غلط انداز میں معلومات فراہم کرنا بھی ریاست سے غداری ہے۔ نوجوان سیاسی معاملات کو صرف سیاست تک رکھیں اپنی ذاتی زندگیاں مت خراب کریں- مجھے عام انتخابات 2013 کے بعد بہت سے تلخ تجربے ہوئے جہاں خاندان اور سماج میں موجود چند دوستوں نے صرف اس بیناد پر روابط توڑ دیے کہ تم نے نواز شریف  کو کیوں ووٹ دیا۔ معذرت کے ساتھ عرض کرتا چلوں  کہ اس معاملے سب سے بچگانہ رویہ محترم عمران خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کے پرستاروں کا ہے۔ اگر سیاسی راہنما مخالفت کے باوجود ایک دوسرے سے تعلقات نہیں توڑتے اور ساتھ بیٹھ کر گپیں لگا سکتے ہیں تو سیاسی کارکن کیوں نہیں؟؟؟  
دوستو ! باتیں بہت سی ہو سکتی ہیں، مگر مجھے مضمون کی  طوالت کا احساس ہے- اس لئے بات کو ختم کرتے وقت صرف ایک مؤدبانہ گزارش کہ آنکھ بند کر کے کسی پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوا کریں بلکہ اللہ پاک کی عطا کردہ صلاحتیوں کو استعمال کرتے ہوئے حقائق سمجھنے کی کوشش بھی کیا کریں۔  
بات پسند آئے تو دوستوں سے بھی شئر کیجئے گا۔ شکریہ !