Monday, March 3, 2014

تبدیلی ممکن --- مگر کیسے؟

پاکستان میں تبدیلی کا لفظ ایک انتخابی نعرہ ہی نہیں بلکہ ایک مقبول  عام اصطلاح بن چکا ہے- تا ہم اس تبدیلی کا عرف عام میں مطلب سیاسی تبدیلی ہوتا ہے-  خونی انقلابی کی بازگشت،  90 دن میں تبدیلی کے وعدے اور سیاست نہیں ریاست بچاؤ کی گردان--- یہ سب مختلف افراد کی سوچ مگر مقصد صرف ایک- حصول اقتدار اور اپنے ایجنڈے کا نفاذ۔
مگر میراموضوع یہ نہیں ہے- بلکہ- سماجی تبدیلی ہے- میرے نزدیک ایک وہی سیاسی  انقلاب کافی تھا، جو 1947 میں آ چکا- تاریخ کے اوراق پر ایک طائرانہ نظر  بھی بتا سکتی ہے کہ وہ کتنا خونی تھا- مزید کسی   خونی انقلاب کو دیکھنے کی ہمت کم از کم مجھ میں نہیں  ہے- جہاں تک مذہبی تبدیلی کی بات ہے تو وہ پیغمبر اعظم ﷺ 1400 سال پہلے لا چکے- اب صرف ان اصولوں پر عملداری کی بات ہے- اور اس کے لئے کسی سیاسی  یا حکومتی تبدیلی کی نہیں—انفرادی واجتماعی طرز فکر بدلنے کی ضرورت ہے-  اگر ہم اجتماعی ضمیر بدلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کسی سیاسی یا مذہبی ایجنڈے کا نفاذ ناممکن نہیں ۔
معذرت کیساتھ عرض کرتا ہوکہ موجودہ انقلابی نعرے منافقت کی عمدہ مثال ہیں- اگر مشاہدہ کرنا ہو  تو حکومت پاکستان کی تازہ ترین 'پارلیمانی ٹیکس ڈائریکٹری' دیکھتے چلیں-  شرمناک حد تک جھوٹ اور منافقت کی داستانیں اور ایک سے بڑھ کر ایک تاویل ملے گی-   200 سے زائد ارکان اسمبلی نے کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا- جبکہ کچھ حضرات نے صرف 68، 72، اور1000 روپے ادا کیے جو کہ   کسی بھی ذی ہوش کا دماغ سن کرنے کو کافی ہیں- انتہائی قابل احترام عمران خان صاحب کی تحریک انصاف جس نے انقلاب کا دعوی کیا--- کا ریکارڈ سب سے مایوس کن رہا-
صوبہ خیبر کے 124 ارکان اسمبلی میں سے صرف 35 نے انکم ٹیکس ادا کیا-   ھمارے ایک اور قائد انقلاب 'مولانا فضل الرحمان نے صرف 13000 ٹیکس ادا کیاجسکے مطابق انکی ماہانہ آمدنی 50،000 روپے  بنتی ہے۔(انکم ٹیکس قوانین کے مطابق 450،000 تک سالانہ آمدنی والے حضرات پر کوئی ٹیکس نہیں- جسکے مطابق اگر آپکی ماہانہ تنخواہ 37،500  سے زائد ہے تو آپکو ایک خاص شرح آمدنی ٹیکس ادا کرنا ہے) -  وفاق میں صرف  وفاقی وزیر  عباس آفریدی،  سینٹراعتزاز احسن ،حمزہ شہباز اور  چند دیگر اراکین نے قابل ذکر ٹیکس ادا کیا-  باقی جنہوں نے ادا کیا وہ انکے طرز زندگی اور  اصل آمدنی کے لحاظ سے بہت کم ہے-  تفصیلات کیلئے آپ FBRکی ویب سائٹ  وزٹ کر سکتے ہیں۔ تا کہ آپکو اندازہ ہو سکے کہ تبدیلی  کا یہ سیاسی نعرہ کوکھلا ہی نہیں بلکہ تضادات سے بھرپورطرز سیاست کا علمبردار بھی ہے-
مگر پھر سوال وہی ہے کہ ہمارے سماجی اورمعاشرتی مسائل کا حل کیا ہے؟
اسکا حل ہے مگر سیاسی نعروں والی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ کی تبدیلی- جسکا آغاز اپنی ذات سے ہو-
قرآن حکیم کی سورۃ صف کی دوسری اور تیسری آیت میں اللہ تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا:
"اے ایمان والو !  تم ایسی بات کہتے ہی کیوں ہو، جو کرتے نہیں- اللہ کے نزدیک بہت ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں"۔

اس آیت کے 2 معانی ہیں- ایک تو یہ وعدوں کی پاسداری کی تلقین کرتی ہیں کہ اگر آپ نے ایک بات کرنے کی کمٹمنٹ کر لی ہے تو اسے پورا کرو- اللہ پاک وعدہ خلافی کو پسند نہیں فرماتا-   یہ  اصول ھماری ذاتی، سماجی، عائلی اور پروفیشنل  زندگی کے ہر ایسپکٹ پر  لاگو ہوتا ہے- جبکہ دوسری طرف یہی آیات تبلیغ کے آداب  بھی سکھاتی ہیں- کہ دوسروں کو وہ کام کرنے کا کیوں کہتے ہو جو خود کرتے نہیں؟ بالفاظ دیگر- دوسروں کو کسی کام کی تلقین کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کرنا چاہئے۔  اوربطور راہنما ایک نمونہ بن کر سامنے آنا چاہئے- یہی وہ چیز ہے جو ہمارےپیغمبر ﷺ نے کر کے دکھائی جسے ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین انقلاب فراموش کیے ہوئے ہیں- دوسروں کو قربانی کی تلقین، ٹیکس ادا کرنے کی تبلیغ، اپنی جماعتوں میں جمہوری اقدار کا فروغ وغیرہ وغیرہ—مگر خود اپنی کار کردگی صفر-
قارئین !
اگر ہم میں سے ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری کو صحیح طرح ادا کرتا رہے تو تبدیلی  لانے کے لئے کسی قائد انقلاب کو اٹھ کر قوم کے ساتھ کھیلواڑ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔تبدیلی ممکن ہے—مگر جب ہم اپنا طرز فکر بدلیں- اور تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ حضور ﷺ نے اگر کسی کو پیٹ پر پتھر رکھنے کا کہا تو خود 2 رکھے- امت پر پانچ نمازیں فرض تھیں تو آپ پر 6-  اسی لیے آپکی ہستی ایک کامل رول ماڈل ہے۔
آپ خود سے وعدہ کریں کہ میں زمہ دار شہری بنوں گا- اپنی ریاستی ، سماجی اور معاشرتی زمہ داریاں احسن طور پر ادا کروں گا-ملکی قوانین کی پیرسی کروں گا- کسی  کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالوں گا- بد زبانی اور بد تمیز ی سے گریز کروں گا-حقوق ا للہ اور حقوق العباد  سمجھوں گا اور ادا کروں گا-   یقین مانیں تبدیلی آ جائے گی- اگر معاشرے میں صرف 313 لوگ یہ کام کرنے کی ٹھان لیں تو ان کو دیکھ کر ایک خاموش انقلاب آ جائے گا۔ 
بطور معاشرہ ہم میں برداشت کی از حد کمی ہے- اگر ہم صرف برداشت کا کلچر فروغ دیں- جو آپ سے اختلاف کرتے ہوں انکو بازو کے زور پر نہیں بلکہ دلیل اور اخلاق کی طاقت سے اپنا ہم نوا بنائیں۔تعلیم عام کریں- خود کو نسلی ، لسانی اورصوبائی تعصبات سے بالا تر کر کے ایک قوم بنیں-  تو کسی اپنے ہم وطن کا خون بہائے بغیر بھی تبدیلی آ سکتی ہے- اور یقین مانیں اس تبدیلی کے لئے اقتدار کا ہونا ضروری نہیں- تربیت، اور اعلی اقدار ہی کافی ہیں-
خواجہ معین الدین چشتی، حضرت علی ہجویری اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی جیسے بزرگان دین کے پاس اقتدار نہیں تھا مگر آج بر صغیر میں اسلام کا وجود ان بزرگوں کے مضبوط کردار اور سوچ کا رہین منت ہے-
جبکہ پورے ہندوستاں پر حکومت کرنے والے جب مر گئے تو قبروں پر کتبے لکھوا گئے—
بر مزار ما غریباں، نے چراغے نے گلے، --- نہ پر پروانہ سوزد، نہ صدائے بلبلے
(ہم غریبوں کے مزار پر نہ تو کوئی چراغ  ہے اور نہ پھول- نہ ہی پروانہ اپنے پر جلاتا ہے اور نہ ہی بلبل کی صدا سننے کو ملتی ہے)
یہ پیغام میرے لئے بھی ہے- آپکے لئے بھی—اور ہمارے قائدین انقلاب کےلئے بھی۔